برطانیہ کے عام انتخابات: لیبر پارٹی 14 برس بعد اقتدار میں، رشی سونک نے شکست تسلیم کرلی

برطانیہ میں عام انتخابات کے نتاِئج کے مطابق لیبر پارٹی نے فتح حاصل کر لی ہے، جس کے بعد سر کیئر سٹامر ملک کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔

لیبر پارٹی حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ 326 نشستیں حاصل کرنے کے بعد باضابطہ طور پر برطانیہ کے عام انتخابات میں کامیاب ہو گئی ہے۔

وسطی لندن میں خطاب کرتے ہوئے ملک کے اگلے وزیر اعظم کیئر سٹامر نے کہا کہ ’تبدیلی کا آغاز ہو رہا ہے۔‘

سر سٹامر کے خطاب کے دوران انھوں نے کہا کہ ’سچ بولوں تو مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘

اس سے قبل اپنے حلقے میں جیت کے بعد تقریر کرتے ہوئے کیئر سٹامر کا کہنا تھا کہ ’یہ ہمارے لیے کارکردگی دکھانے کا وقت ہے۔‘

دوسری جانب برطانوی وزیرِ اعظم رشی سونک نے عام انتخابات میں شکست قبول کرلی ہے۔

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’لیبر پارٹی یہ عام انتخابات جیت چکی ہے اور میں نے سر کیئر سٹامر کو فون کر کے انھیں مبارک باد دے دی ہے۔‘

’میں اس شکست کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔‘

اب تک 650 میں سے 500 سے زائد نشستوں کے نتائج کا اعلان کردیا گیا ہے، جس کے مطابق لیبر پارٹی کو دیگر جماعتوں پر 166 نشستوں کی برتری حاصل ہے۔

ایگزٹ پولز کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو صرف 136 نشستیں ملنے کی توقع ہے اور یہ تاریخی طور پر ان کی عام انتخابات میں اب تک کی بدترین شکست ہے۔

سکاٹش نیشنل پارٹی کے رہنما سٹیفن فلن نے انتخابات کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کو ’سٹامر سونامی بہا لے گیا ہے۔‘

انھوں مزید کہا کہ ان کے ساتھی ’سکاٹ لینڈ بھر میں اپنی نشستیں ہار رہے ہیں۔‘

تاہم سٹیفن فلن 15 ہزار 213 ووٹوں کے ساتھ اپنی نشست جیتنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے مخالف امیدوار نے 11 ہزار 455 ووٹ حاصل کیے۔

اس سے قبل بی بی سی نے پیشگوئی کی تھی کہ لیبر پارٹی کو دیگر جماعتوں پر 160 سے زائد سیٹوں کی برتری حاصل ہو گی۔

بی بی سی نے پیشگوئی کی تھی کہ کنزرویٹو پارٹی کو عام انتخابات میں 154 نشستیں مل سکتی ہیں۔

واضح رہے کہ یہ ایگزٹ پول انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز کے تقریباً 130 پولنگ سٹیشنوں کے ووٹروں کے ڈیٹا پر مبنی تھے۔ اس پول میں شمالی آئرلینڈ کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ پچھلے پانچ عام انتخابات کے دوران ایگزٹ پول بڑے پیمانے پر درست ثابت ہوئے تھے۔

دوسری جانب لبرل ڈیموکریٹس کا 56 ارکان کے ساتھ تیسرے نمبر پر آنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ سکاٹش نیشنل پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کی تعداد کم ہو کر 10 تک محدود ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا جبکہ ریفارم یو کے پارٹی کو 13 سیٹیں ملنے کی پیشگوئی کی گئی تھی۔

2019 میں بورس جانسن کی قیادت میں کنزرویٹو پارٹی کو 80 سیٹوں کی برتری حاصل ہوئی تھی۔

جہاں ایک طرف سنہ 2010 کے بعد پہلی بار لیبر پارٹی کا وزیر اعظم منتخب ہونے جا رہا ہے وہیں دوسری جانب کنزرویٹو پارٹی کو اپنی مستقبل کی سمت تعین کرنا پڑے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ رشی سونک کو پارٹی عہدے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

کنزرویٹو پارٹی کو لبرل ڈیموکریٹس اور ’ریفارم یو کے‘ پارٹی کی جانب سے بھی سخت مقابلے کا سامنا تحھا۔

سابق اٹارنی جنرل سر رابرٹ بکلینڈ کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حالیہ انتخابات ان کی پارٹی کے لیے ’قیامت خیز‘ ثابت ہوئے ہیں۔

انھوں نے لیبر پارٹی کی ممکنہ جیت کو ’تبدیلی کے لیے دیا جانے والا ووٹ‘ قرار دیا۔

رابرٹ بکلینڈ حالیہ انتخابات کے نتائج کے مطابق اپنی سیٹ ہارنے والے کنزرویٹو پارٹی کے پہلے ایم پی تھے۔

انھوں نے سابق ہوم سکریٹری سویلا بریورمین سمیت اپنی پارٹی کے دیگر ساتھیوں پر انتخابی مہم کے دوران ’غیر پیشہ ورانہ رویے‘ اور ’نظم و ضبط‘ کے فقدان کا الزام لگاتے ہوئے غصے کا اظہار کی۔

آپ کو اس میں دلچسپی ہو سکتی ہے۔

World Times @ 2023 All Rights Reserved